Wednesday 4 July 2012

ستارے مل نہیں سکتے

عجب دن تھے محبت کے 
عجب موسم تھے چاہت کے 
کبھی گر یاد آ جائیں 
تو پلکوں پر ستارے جھلملاتے ہیں 
کسی کی یاد میں راتوں کو 
اکثر جاگنا معمول تھا اپنا 
کبھی گر نیند آ جاتی تو ہم یہ سوچنے لگتے 
ابھی تو وہ ہمارے واسطے رویا نہیں ہو گا 
ابھی سویا نہیں ہو گا 
ابھی ہم بھی نہیں روتے 
ابھی ہم بھی نہیں سوتے 
سو پھر ہم جاگتے تھے اور اسکو یاد کرتے تھے 
اکیلے بیٹھ کر ویران دل آباد کرتے تھے 
ہمارے سامنے تاروں کے جھرمٹ میں 
اکیلا چاند ہوتا تھا 
جو اس کے حسن کے آگے بہت ہی ماند ہوتا تھا 
فلک پر رقص کرتے انگنت روشن ستاروں کو 
جو ہم ترتیب دیتے تھے 
تو اس کا نام بنتا تھا 
ہم اگلے روز جب ملتے تو 
گزری رات کی بے کلی کا ذکر کرتے تھے 
ہر اک قصہ سناتے تھے 
کہاں کس وقت 
کس طرح سے دل دھڑکا بتاتے تھے 
میں جب کہتا کے 
جاناں! آج تو میں رات کو اک پل نہیں سویا 
تو وہ خاموش رہتی تھی 
مگر اس کی نیند میں ڈوبی ہوئی دو جھیل سی آنکھیں 
اچانک بول اٹھتی تھیں 
میں جب اس کو بتاتا تھا کے 
میں نے رات کو روشن ستاروں میں 
تمہارا نام دیکھا ہے 
تو وہ کہتی تم جھوٹ کہتے ہو 
ستارے میں نے دیکھے تھے 
اور ان روشن ستاروں میں تمہارا نام لکھا تھا 
عجب معصوم لڑکی تھی، مجھے کہتی تھی 
لگتا ہے کے اب اپنے ستارے 
مل ہی جائیں گئے 
مگر اس کو کیا خبر تھی 
کنارے مل نہیں سکتے 
محبت کرنے والوں کے 
ستارے مل نہیں سکتے

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment