Friday 6 July 2012

حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں آفریں آفریں

گیت

حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں
آفریں آفریں
تُو بھی دیکھے اگر، تو کہے ہمنشیں
آفریں آفریں

ایسا دیکھا نہیں، خوبصورت کوئی
جسم جیسے اجنتا کی مورت کوئی
جسم جیسے نگاہوں پہ جادو کوئی
جسم نغمہ کوئی، جسم خوشبو کوئی
جسم جیسے مچلتی ہوئی راگنی
جسم جیسے مہکتی ہوئی چاندنی
جسم جیسے کہ کھلتا ہوا اک چمن
جسم جیسے کہ سورج کی پہلی کرن
جسم ترشا ہوا، دلکش و دلنشیں
صندلیں صندلیں، مرمریں مرمریں
آفریں آفریں

چہرہ اک پھول کی طرح شاداب ہے
چہرہ اس کا ہے یا کوئی ماہتاب ہے
چہرہ جیسے غزل، چہرہ جانِ غزل
چہرہ جیسے کلی، چہرہ جیسے کنول
چہرہ جیسے تصور بھی، تصویر بھی
چہرہ اک خواب بھی، چہرہ تعبیر بھی
چہرہ کوئی الف لیلوی داستاں
چہرہ اک پَل یقیں، چہرہ اک پَل گماں
چہرہ جیسا کہ چہرہ کوئی نہیں
ماہ رو ماہ رو، مہ جبیں، مہ جبیں
آفریں آفریں

آنکھیں دیکھیں تو میں دیکھتا رہ گیا
جام دو اور دونوں ہی دو آتشہ
آنکھیں یا میکدے کے یہ دو باب ہیں
آنکھیں ان کو کہوں یا کہوں خواب ہیں
آنکھیں نیچی ہوئیں تو حیا بن گئیں
آنکھیں اونچی ہوئیں تو دعا بن گئیں
آنکھیں اٹھ کر جھکیں تو ادا بن گئیں
آنکھیں جھک کر اٹھیں تو قضا بن گئیں
آنکھیں جن میں ہیں قید آسمان و زمیں
نرگسیں نرگسیں، سرمگیں سرمگیں
آفریں آفریں

زلف جاناں کی بھی لمبی ہے داستاں
زلف کی میرے دل پر ہیں پرچھائیاں
زلف جیسے کہ امڈی ہوئی ہو گھٹا
زلف جیسے کہ ہو کوئی کالی بلا
زلف الجھے تو دنیا پریشان ہو
زلف سلجھے تو یہ زیست آسان ہو
زلف بکھرے سیاہ رات چھانے لگے
زلف لہرائے تو رات جانے لگے
زلف زنجیر ہے، پھر بھی کتنی حسیں
ریشمیں ریشمیں، عنبریں عنبریں
آفریں آفریں

جاوید اختر

No comments:

Post a Comment