Saturday 14 July 2012

وہ جو اپنا یار تھا دیر کا کسی اور شہر میں جا بسا

وہ جو اپنا یار تھا دیر کا کسی اور شہر میں جا بسا
کوئی شخص اس کے مکان میں کسی اور شہر کا آ بسا
یہی آنا جانا ہے زندگی، کہیں دوستی کہیں اجنبی
یہی رشتہ کارِ حیات ہے کبھی قرب کا کبھی دور کا
ملے اس میں لوگ رواں دواں کوئی بے وفا کوئی با وفا
کٹی عمر یہاں وہاں، کہیں دل لگا کہ نہیں لگا
کوئی خواب ایسا بھی ہے یہاں جسے دیکھ سکتے ہوں دیر تک
کسی دائمی شبِ وصل کا، کسی مستقل غمِ یار کا
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں
کوئی ایسا شہر ضرور ہے انہی دوستوں سے بھرا ہوا
یونہی ہم منیرؔ پڑے رہے کسی اِک مکاں کی پناہ میں
کہ نکل کے ایک پناہ سے کہیں اور جانے کا دم نہ تھا

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment