چل انشا اپنے گاؤں میں
یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت
پر اصلی کم، بہرُوپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا
جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت
چل انشاؔ اپنے گاؤں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟
یہاں ہر اِک بات نرالی ہے
اِس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مُفلس ہونا گالی ہے
چل انشاؔ اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
جہاں سچے رشتے یاریوں کے
جہاں گُھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سُکھ والے
جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے
چل انشاؔ اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
ابن انشا
No comments:
Post a Comment