Friday 6 July 2012

تری شوریدہ مزاجی کے سبب، تیرے نہیں

ِری شوریدہ مزاجی کے سبب، تیرے نہیں
اے مِرے شہر! تِرے لوگ بھی اب تیرے نہیں
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں، یہ سب تیرے نہیں
یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تِھرکتے ہوئے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں، کب تیرے نہیں
تیرا احسان کہ، جانے گئے، پہچانے گئے
اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں
دربدر ہو کے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
وہ تِرے خانماں برباد بھی، اب تیرے نہیں
اب گلہ کیا کہ ہوا ہو گئے سب حلقہ بگوش
میں نہ کہتا تھا کہ یہ سہل طلب، تیرے نہیں
ہو نہ ہو دل پہ کوئی بوجھ ہے بھاری، ورنہ
بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب، تیرے نہیں

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment