Sunday 8 July 2012

غم کا بادل تری زلفوں سے گھنیرا نکلا

غم کا بادل تری زُلفوں سے گھنیرا نکلا
سایۂ ابر بھی قسمت کا اندھیرا نکلا
سو گئے چاند ستارے تو اُجالا جاگا
چل دیئے ہجر کے مارے تو سویرا نکلا
اپنا گھر چھوڑ کے جانا کوئی آساں تو نہیں
ہاتھ ملتا مرے آنگن سے اندھیرا نکلا
نیند نے لوٹ لیے خواب خزانے میرے
جس کو آنکھوں میں بسایا تھا لُٹیرا نکلا
ٹُوٹ کر ظلم کی دیوار زمیں بوس ہوئی
چاند جب توڑ کے ظُلمات کا گھیرا نکلا
میں تو سمجھا تھا کہ ویران ہے دل کی بستی
اس خرابے میں بھی اِک وہم کا ڈیرا نکلا
شہر چھوڑا تھا تُجھے دل سے بھلانے کے لیے
قریہ قریہ تری یادوں کا بسیرا نکلا
ایک دُشمن جو ملا ہے تو میں کتنا خُوش ہوں
شہرِ احباب میں اِک شخص تو میرا نکلا
دل کو ہمدرد سمجھ رکھا تھا عاجزؔ میں نے
کیا قیامت ہے یہ بے درد بھی تیرا نکلا

مشتاق عاجز

انتخاب از الاپ 

No comments:

Post a Comment