Tuesday 3 July 2012

اے میری سوچ کی محور تم اپنے سارے دکھ رو لو

اے میری سوچ کی محور، تم اپنے سارے دکھ رو لو
سمجھ لو مجھ کو چارہ گر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
اِسے تم مشورہ سمجھو یا میرا تجربہ سمجھو 
یہ دل ہوجائے گا پتھر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
مجھے خاموش اشکوں سے بہت ہی خوف آتا ہے
نہ رکھو آنکھ یوں بنجر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
تمہیں اس کی خبر ہو گی، یہ اک دن خُوں رلائے گا
بھلا کر خواب کا پیکر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
مری جاں! یہ نہیں سوچو، سمیٹوں گا اِنہیں کیسے
مرے شانے پہ سَر رکھ کر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
سُنا ہے اُس کی آنکھوں میں، تمہارے زخم کھلتے ہیں
تمہیں کہتا ہے جو اکثر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
سُنو! نامہرباں آنکھیں، تمہیں ایسے ہی دیکھیں گی
نہیں بدلے گا یہ منظر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
اگر یوں اشک رونے سے، انَا پر چوٹ پڑتی ہے
ہنسی کی اوڑھ کر چادر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
بتا دینا، یہ میرا دل تمہارے غم سے بوجھل ہے
اُسے کہنا یہ نامہ بَر! تم اپنے سارے دکھ رو لو

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment