Sunday 15 July 2012

ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر

ہوا کے رُخ پر چراغِ اُلفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے
وہ اِک دِیے سے نہ جانے کتنے دِیے جلا کر چلا گیا ہے
ہم اس کی باتوں کی بارشوں میں ہر ایک موسم میں بھیگتے ہیں
وہ اپنی چاہت کے سارے منظر ہمیں دِکھا کر چلا گیا ہے
اسی کے بارے میں حرف لکھے اسی پہ ہم نے غزل کہی
جو کجلی آنکھوں سے میرے دل میں نقب لگا کر چلا گیا ہے
متاعِ جاں بھی اسی پہ واری اسی کے دم سے ہے سانس جاری
مرے بدن میں جو خُوشبوؤں کی ہوا بسا کر چلا گیا ہے
یہ فصلِ فکر و خیال اپنی اسی کے دم سے ہری بھری ہے
جو کچے کوٹھوں کے آنگنوں سے دُھواں اٹھا کر چلا گیا ہے
ہماری آنکھوں میں رت جگے کی جھڑی لگی ہے اسی گھڑی سے
کہ جب سے کوئی غزال اپنی جھلک دِکھا کر چلا گیا ہے
ہرن محبت کے سبزہ زاروں میں جانے کب چوکڑی بھریں گے
وہ جاتے جاتے سوال ایسا حسنؔ اُٹھا کر چلا گیا ہے

حسن رضوی

No comments:

Post a Comment