Wednesday 18 July 2012

نظر کے پار دیا سا جلا کے دیکھ لیا

نظر کے پار دِیا سا جلا کے دیکھ لیا
تمہارے در پہ کئی بار جا کے دیکھ لیا
نئی طرح سے، نئے ڈھنگ سے ہوئے مجرُوح
قدم قدم پہ تمہیں آزما کے دیکھ لیا
جگر کی کِرچیاں کچھ اور بھی بِکھر سی گئیں
گو اپنی پلکوں سے ہم نے اُٹھا کے دیکھ لیا
یہ سانحہ ہے کہ دل کی کسک رہی باقی
گنوا کے دیکھا ہے، خود کو مِٹا کے دیکھ لیا
اٹک کے رہ گیا پلکوں پہ خواب ایسا تھا
ہزار طرح سے خود کو جگا کے دیکھ لیا
بِگڑ تو سکتا ہے لیکن سنور نہیں سکتا
نصیب ہم نے بہت آزما کے دیکھ لیا

فرحت شہزاد

No comments:

Post a Comment