Wednesday 11 July 2012

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے

گُلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اُداس ہے یارو! صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمھارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضور يار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ ميں لے کے گريباں کا تار تار چلے
مقام، فیضؔ! کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کُوئے یار سے نکلے تو سُوئے دار چلے

فیض احمد فیض

بعض دوست نیچے دئیے گئے شعر فیض صاحب سے منسوب کرتے ہیں 
ہُوا جو تیرِ نظر نِیم کش تو کیا حاصل
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آرپار چلے
 در حقیقت مذکورہ شعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کا ہے جو مہدی حسن مرحوم نے ایک بار اسی غزل میں گایا تھا اور بتایا تھا کہ یہ شعر مہندر سنگھ بیدی سحرؔ صاحب کا ہے جو فیض صاحب نے فرمائش کر کے شامل کروایا تھا، اس غزل کا لنک حاضر ہے۔

3 comments: