Tuesday 3 July 2012

میرے آنسو میرے اندر گرتے ہیں

میرے آنسو میرے اندر گرتے ہیں
جیسے دریا بیچ سمندر گرتے ہیں
تیری یادیں وہ طوفان اٹھاتی ہیں
اک اک کر کے سارے منظر گرتے ہیں
کتنی لہریں شعروں میں ڈھل جاتی ہیں
سوچ کے پانی میں جب پتھر گرتے ہیں
ہم نے ٹھوکر کھا کر چلنا سیکھا ہے
اور ہیں وہ جو ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں
رونے والے! یہ تجھ کو معلوم نہیں
تیرے آنسو میرے دل پر گرتے ہیں
تم بس اس کا روگ لگا کر بیٹھے ہو
سپنوں کے یہ گھر تو اکثر گرتے ہیں
کات رہا ہے عاطفؔ کوئی آنکھوں میں
تکیے پر یہ خواب جو اکثر گرتے ہیں

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment