Thursday 19 July 2012

زندگی درد بھی دوا بھی تھی

زندگی درد بھی، دوا بھی تھی
ہمسفر بھی، گریز پا بھی تھی
کچھ تو تھے دوست بھی وفا دُشمن
کچھ میری آنکھ میں حیا بھی تھی
دن کا اپنا بھی شور تھا لیکن
شب کی آواز بھی، صدا بھی تھی
عشق نے ہم کو غیب دان کیا
یہی تحفہ، یہی سزا بھی تھی
گرد بادِ وفا سے پہلے تک
سر پہ خیمہ بھی تھا رِدا بھی تھی
ماں کی آنکھیں چراغ تھیں جس میں
میرے ہمراہ وہ دعا بھی تھی
کچھ تو تھی رِہگزر میں شمعِ طلب
اور کچھ تیز وہ ہوا بھی تھی
بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ
لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment