Wednesday 11 July 2012

حسن بے پروا کو خودبین و خود آرا کر دیا

حُسن بے پروا کو خودبِین و خود آرا کر دیا
کیا کِیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا
بڑھ گئیں کچھ تم سے مل کر اور بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا
پڑھ کے تیرا خط مِرے دل کی عجب حالت ہوئی
اضطرابِ شوق نے اِک حشر برپا کر دیا
ہم رہے یاں تک تِری خدمت میں سرگرمِ نیاز
تُجھ کو آخر آشنائے نازِ بے جا کر دیا
اب نہیں دل کو کسی صُورت کسی پہلو قرار
اس نگاہِ ناز نے کیا سحر ایسا کر دیا
عشق سے تیرے بڑھے کیا کیا دلوں کے مرتبے
مہر ذروں کو کیا قطروں کو دریا کر دیا
کیوں نہ ہوں تیری محبت سے مُنور جان و دل
شمع جب روشن ہوئی گھر میں اُجالا کر دیا
تیری محفل سے اُٹھاتا غیر مُجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تُو نے بھی اشارہ کر دیا
سب غلط کہتے تھے لطفِ یار کو وجہِ سکون
دردِ دل اُس نے تو حسرتؔ اور دُونا کر دیا

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment