اپنا شہکار ابھی اے مِرے بُت گر! نہ بنا
دل دھڑکتا ہے مِرا، تُو مجھے پتھر نہ بنا
آتی جاتی ہوئی سانسوں پہ لکیریں مت کھینچ
میری تصویر، مجھے پاس بٹھا کر نہ بنا
قیدِ آوارگئ جاں ہی بہت ہے مجھ کو
وہ گھروندے تِرے بچپن میں بھی ڈھا دیتی تھی
اب تو وہ کھیل کی باتیں بھی نہیں، گھر نہ بنا
اِک تِرا دھیان جو ٹُوٹا تو بکھر جاؤں گا
مجھ کو اِک لہر پہ بہنے دے، سمندر نہ بنا
مصحف اقبال توصیفی
No comments:
Post a Comment