Tuesday 3 July 2012

میں شام یادوں کے جنگلوں میں گذارتا ہوں کہ کچھ لکھوں گا

میں شام یادوں کے جنگلوں میں گزارتا ہوں، کہ کچھ لکھوں گا
یہ شہر سارا ہی سو چکا ہے میں جاگتا ہوں، کہ کچھ لکھوں گا
بہار رُت کے وہ خواب سارے جو میری پلکوں پہ آ سجے تھے 
وہ خواب آنکھوں میں جل چکے ہیں، میں جل رہا ہوں، کہ کچھ لکھوں گا
میں پچھلے موسم کی بارشوں کو، پھر اپنی آنکھوں میں لا رہا ہوں 
کہ اب کے ساون کی رُت میں، میں بھی یہ سوچتا ہوں، کہ کچھ لکھوں گا
عجیب رُت ہے جدائیوں کی، عذاب دن ہیں، عذاب راتیں
میں چند مہمل سے لفظ لکھ کر، یہ سوچتا ہوں، کہ کچھ لکھوں گا
میں لفظ پلکوں سے چن رہا ہوں، میں خواب کاغذ پہ بُن رہا ہوں
میں تیری آہٹ بھی سن رہا ہوں، میں جانتا ہوں، کہ کچھ لکھوں گا
وہ سارے رستے کہ جن پہ ہم تم، چلے تھے چاہت کے سنگ عاطفؔ
میں اب جو اُن پر کبھی گیا تو، یہ جانتا ہوں، کہ کچھ لکھوں گا

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment