Wednesday 4 July 2012

راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے

راحتِ جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے
اس نے پوچھا تو ہے اتنا، تِرا حال اچھا ہے
ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے
تِرے آنے سے کوئی ہوش رہے یا نہ رہے
اب تلک تو تِرے بیمار کا حال اچھا ہے
یہ بھی ممکن ہے تِری بات ہی بن جائے کوئی
اسے دے دے کوئی اچھی سی مثال، اچھا ہے
دائیں رُخسار پہ آتش کی چمک وجہِ جمال
بائیں رُخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے
سخت غصہ میں بھی یہ سوچ کے ہنس دیتا ہوں
یہ وہی شخص ہے جو وقتِ وصال اچھا ہے
آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی، وہی مچھلی، وہی جال اچھا ہے
چھوڑیے اتنی دلیلوں کی ضرورت کیا ہے
ہم ہی گاہک ہیں بُرے آپ کا مال اچھا ہے
کوئی دینار، نہ درہم، نہ ریال اچھا ہے
جو ضرورت میں ہو موجود وہ مال اچھا ہے
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment