Wednesday 4 July 2012

میں اس کی آہٹیں چن لوں میں اس سے بول کر دیکھوں

میں اسکی آہٹیں چن لوں میں اس سے بول کر دیکھوں
گلی میں کون پھرتا ہے دریچہ کھول کر دیکھوں
اور اب یہ سوچتا ہوں کیا تہِ داماں پڑے رہنا
کسی مشعل کی لو ٹھہروں ہوا میں ڈول کر دیکھوں
یونہی شاید تسلی ہو میری خستہ مزاجی کی
میں اپنی خاک ہی کوئے ہنر میں رول کر دیکھوں
یہ کیسی بیدِ مجنوں کی تمنا مجھ میں در آئی
کہ میں بھی خود میں پیدا یہ انا کا جھول کر دیکھوں
میرے بھی سر پہ رکھا ہے جنوں اسباب کی صورت
ملے فرصت تو اس گٹھڑی کو میں بھی کھول کر دیکھوں
نہ وہ آوارگی مجھ میں نہ وہ آشفتگی مجھ میں
میں کس معیار پر اپنی وفا کو تول کر دیکھوں

عباس تابش

No comments:

Post a Comment