Thursday 19 July 2012

دشمن کو ہارنے سے بچانا عجیب تھا

دشمن کو ہارنے سے بچانا عجیب تھا
ترکِ مدافعت کا بہانہ عجیب تھا
اک دوسرے کو جان نہ پائے تمام عمر
ہم ہی عجیب تھے کہ زمانہ عجیب تھا
زندہ بچا نہ قتل ہُوا طائرِ امید
اس تیرِ نِیم کش کا نشانہ عجیب تھا
سنتے رہے اخیر تلک مہر و ماہ و نجم
اس خاکداں کا سارا فسانہ عجیب تھا
جس راہ سے کبھی نہیں ممکن تیرا گزر
تیرے طلب گروں کا ٹھکانہ عجیب تھا
اب کے تو یہ ہوا ہے کہ میرے بلانے سے
اس زود رنج شخص کا آنا عجیب تھا
کھونا تو خیر تھا ہی کسی دن اسے مگر
ایسے ہَوا مزاج کا پانا عجیب تھا
سب داغ بارشوں کی ہوا میں بجھے رہے
بس دل کا ایک زخم پرانا عجیب تھا

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment