Wednesday 11 July 2012

جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے

جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
یاں بھی پیدا ہوئے پھر آپ پہ مرنے والے
ہے اداسی شبِ ماتم کی سہانی کیسی
چھاؤں میں تاروں کی نکلتے ہیں سنورنے والے
ہم تو سمجھے تھے کے دشمن پہ اٹھایا خنجر
تم نے جانا کہ ہمیں تم پہ ہیں مرنے والے
صبر کی میرے، مجھے داد ذرا دے دینا
او میرے حشر کے دن فیصلہ کرنے والے
عمر کیا ہے ابھی کم سِن ہیں، نہ تنہا لیٹیں
سو رہیں پاس میرے خواب میں ڈرنے والے
کیا مزہ دیتی ہے بجلی کی چمک مجھ کو ریاضؔ
مجھ سے لِپٹے ہیں مِرے نام سے ڈرنے والے

ریاض خیر آبادی

No comments:

Post a Comment