Sunday 22 July 2012

سنبھل جاؤ چمن والو خطر ہے ہم نہ کہتے تھے

سنبھل جاؤ چمن والو! خطر ہے، ہم نہ کہتے تھے
جمالِ گُل کے پردے میں شرر ہے، ہم نہ کہتے تھے
لبوں کی تشنگی کو ضبط کا اِک جام کافی ہے
چھلکتا جام زہرِ کارگر ہے، ہم نہ کہتے تھے
زمانہ ڈھونڈتا پِھرتا ہے جس کو اِک زمانے سے
محبت کی وہ اِک پہلی نظر ہے، ہم نہ کہتے تھے
قیامت آ گئی لیکن، وہ آئے ہیں، نہ آئیں گے
شبِ فرقت کی کب کوئی سحر ہے، ہم نہ کہتے تھے
غمِ جاناں، غمِ ایّام کے سانچے میں ڈھلتا ہے
کہ اِک غم دوسرے کا چارہ گر ہے، ہم نہ کہتے تھے
تڑپتی کوندتی تھی برق، لہراتی، مچلتی تھی
ہمارے چار تِنکوں پر نظر ہے، ہم نہ کہتے تھے
غبارِ راہ میں کھو جائے گا یہ کارواں آخر
کہ رہزن کارواں کا راہبر ہے، ہم نہ کہتے تھے
نشانِ منزلِ مقصود سے آگاہ تھے واصفؔ
فریبِ آگہی سے کب مفر ہے، ہم نہ کہتے تھے

واصف علی واصف​

No comments:

Post a Comment