Tuesday 10 July 2012

اب اس کو وہ بھولی باتیں یاد دلانا ٹھیک نہیں

اب اُس کو وہ بُھولی باتیں یاد دلانا ٹھیک نہیں
ناحق وہ آزردہ ہو گا، اُسے رُلانا ٹھیک نہیں
فون کے آگے چپ بیٹھا، میں کتنی دیر سے سوچ رہا ہوں
ابھی وہ تھک کر سویا ہو گا، اُسے جگانا ٹھیک نہیں
اِک روشن کھڑکی کہتی ہے دیکھو، آگے دریا ہے
جاگ رہے ہیں سب گھر والے لان میں آنا ٹھیک نہیں
اُس کے سپنے ٹُوٹ گئے، تو تم کو کیا نیند آئے گی
گڑیا جیسی لڑکی کو، یوں آس دلانا ٹھیک نہیں
جتنا سفر گزرا ہے اب تک اب اس کی تکمیل کرو
تم اپنے گھر، میں اپنے گھر، آگے جانا ٹھیک نہیں
گھر والے ناراض تو ہوں گے، اتنی دیر سے آنے پر
چاند کے ساتھ سفر میں تھے تم، یہ تو بہانہ ٹھیک نہیں

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment