Thursday 19 July 2012

دشت و دریا سے گزرنا ہو کہ گھر میں رہنا

دشت و دریا سے گزرنا ہو کہ گھر میں رہنا
اب تو ہر حال میں ہے ہم کو سفر میں رہنا
دل کو ہر پل کِسی جادو کے اثر میں رہنا
خود سے نکلے تو کسی اور کے ڈر میں رہنا
شہرِ غم! دیکھ، تیری آب و ہوا خشک نہ ہو
راس آتا ہے اسے دیدۂ تر میں رہنا
فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت
اختیار اپنا بس اتنا کہ خبر میں رہنا
کوئی خاطر نہ مدارات نہ تقریبِ وصال
ہم تو بس چاہتے ہیں تیری نظر میں رہنا
رات بھر چاند میں دیکھا کروں صورت اسکی
صبح کو اور ہی سودا میرے سر میں رہنا
میں تو ہر چہرے میں اب تک وہی چہرہ دیکھوں
اس کو ہر روز تماشائے دِگر میں رہنا
وہی تنہائی، وہی دھوپ، وہی بے ستمی
گھر میں رہنا بھی ہُوا، راہگزر میں رہنا
ٹوٹنا یوں تو مقدر ہے، مگر کچھ لمحے
پھول کی طرح میسر ہو شجر میں رہنا

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment