Wednesday 11 July 2012

ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں

ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں
موسمِ گُل میں بھی اندر سے مِرے رہتے ہیں
تم کو آنا ہو تو آ جاؤ مگر یاد رہے
ہم ذرا اپنے زمانے سے پرے رہتے ہیں
ہاں کبھی اپنے بھی ہمسائے ہوا کرتے تھے
اب تو ہم اپنے ہی سائے سے ڈرے رہتے ہیں
جیسے دیوار پہ رکھے ہوئے بے نُور چراغ
ایسے کچھ سر بھی تو شانوں پہ دھرے رہتے ہیں
ہے مگر چاند کی خواہش بھی اُنہی کو زیبا
جن کے کشکول ستاروں سے بھرے رہتے ہیں
اُن کو سُولی پہ کہ نیزے پہ سجا دو عاجزؔ
جو کھرے ہیں وہ بہ ہر حال کھرے رہتے ہیں

مشتاق عاجز

No comments:

Post a Comment