Thursday 19 July 2012

میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی

میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی
پر کیا ہوا کہ صبح تلک جان بھی نہ تھی
آئے ہیں گھر میرے، تجھے جتنی جھجک رہی
اس درجہ تو میں بے سر و سامان بھی نہ تھی
اتنا سمجھ چکی تھی میں اس کے مزاج کو
وہ جا رہا تھا، اور میں حیران بھی نہ تھی
آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی
پر تجھ سے قبل اتنی پریشان بھی نہ تھی
جس جا مکین بننے کے دیکھے تھے میں نے خواب
اس گھر میں ایک شام کی مہمان بھی نہ تھی
دنیا کو دیکھتی رہی جس کی نظر سے میں
اس آنکھ میں میرے لیے پہچان بھی نہ تھی
روتی رہی اگر تو مجبور تھی بہت
وہ رات کاٹنی کوئی آسان بھی نہ تھی
نقدِ وفا کو چشم خریدار کیا ملے
اس جنس کیلئے کوئی دکان بھی نہ تھی

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment