Monday 30 July 2012

یہ چمک دھول میں تحلیل بھی ہو سکتی ہے

یہ چمک دھول میں تحلیل بھی ہو سکتی ہے
کائنات اِک نئی تشکیل بھی ہو سکتی ہے
تم نہ سمجھو گے کوئی اور سمجھ لے گا اِسے
خامشی درد کی ترسِیل بھی ہو سکتی ہے
کچھ سنبھل کر رہو اِن سادہ ملاقاتوں میں
دوستی عشق میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے
میں ادھُورا ہوں مگر خُود کو ادھورا نہ سمجھ
مجھ سے مل کر تری تکمیل بھی ہو سکتی ہے
کاٹنا رات کا آسان بھی ہو سکتا ہے
دل میں اِک یاد کی قندِیل بھی ہو سکتی ہے
اس قدر بھی نہ بڑھو دامنِ دل کی جانب
یہ محبت کوئی تمثِیل بھی ہو سکتی ہے
ہاں دل و جان فدا کر دو ظہیرؔ اس پہ مگر
یہ بھی اِمکان ہے تذلِیل بھی ہو سکتی ہے

علی ظہیر

No comments:

Post a Comment