Tuesday 31 July 2012

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جُرم ہے پتا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی! موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
زندگی! اب بتا کہاں جائیں
زہر بازار میں ملا ہی نہیں
دھن کے ہاتھوں بکے ہیں سب قانون
اب کسی جرم کی سزا ہی نہیں
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نُور سنسار سے گیا ہی نہیں

کرشن بہاری نور

No comments:

Post a Comment