Friday 13 July 2012

انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ

اِنہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ
یہ اداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں
کسی یاد کو پکارو، کسی درد کو جگاؤ
وہ کہانیاں ادھوری، جو نہ ہو سکیں گی پوری
انہیں میں بھی کیوں سناؤں انہیں تم بھی کیوں سناؤ
یہ جُدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ آیا، مِری بات مان جاؤ
بعض غزلوں میں یہ شعر یوں بھی ملتا ہے
یہ جُدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ لوٹا، مِری بات مان جاؤ
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فرازؔ کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ

احمد فراز

No comments:

Post a Comment