Tuesday 10 July 2012

لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا میخانہ ہے

لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا مے خانہ ہے
رنگِ خونِ دل نہیں چمکا، گردش میں پیمانہ ہے
مِٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ہے فریب امیدوں کا
اِس کو یہاں سے کون نکالے، یہ تو صاحبِ خانہ ہے
ایسی باتیں اور سے جا کر کہئے تو کچھ بات بھی ہے
اس سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ہے
طور اطوار انوکھے اس کے، کس بستی سے آیا ہے
پاؤں میں لغزش کوئی نہیں ہے، یہ کیسا مستانہ ہے
مۓ خانے کی جھلمل کرتی شمعیں دل میں کہتی ہیں
ہم وہ رِند ہیں جن کو اپنی حقیقت بھی افسانہ ہے

میرا جی

No comments:

Post a Comment