Saturday 7 July 2012

ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے

ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے
اور جلتا اک چراغ سرِ رہگزر بھی ہے 
ہر لمحہ گھر کو لوٹ کے جانے کا بھی خیال
ہر لمحہ اس خیال سے دل کو حذر بھی ہے
تنہائیاں پکارتی رہتی ہیں، آؤ، آؤ
اے بیکسی بتا! کہیں اس سے مفر بھی ہے
کس طرح کاٹی، کیسے گزاری تمام عمر
وہ مل گیا تو ایسے سوالوں کا ڈر بھی ہے
کیوںکر نہ زندگی میں رہے وحشتوں سے کام
ہر لحظہ جب گماں ہو، کوئی بام پر بھی ہے

طارق بٹ

No comments:

Post a Comment