Wednesday 18 July 2012

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

لُطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اُٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ میرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
اِنہی قدموں نے تمہارے اِنہی قدموں کی قسم
خاک میں اِتنے مِلائے ہیں کہ جی جانتا ہے
جو زمانے کے سِتم ہیں، وہ زمانہ جانے
تُو نے دل اِتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے
مُسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تُو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
کعبہ و دَیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
دوستی میں تِری درپردہ ہمارے دُشمن
اِس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغِؔ وارفتہ کو ہم آج تیرے کُوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment