Thursday 19 July 2012

بے فیض رفاقت میں ثمر کس کے لئے تھا

بے فیض رفاقت میں ثمر کِس کے لیے تھا
جب دھوپ تھی قسمت میں تو شجر کس کے لیے تھا
پردیس میں سونا تھا تو چھت کِس لیے ڈالی
باہر ہی نکلنا تھا تو گھر کس کے لیے تھا
جس خاک سے پھوٹا ہے اسی خاک کی خوشبو
پہچان نہ پایا تو ہنر کس کے لیے تھا
اے مادر گیتی! تیری حیرت بھی بجا ہے
تیرے ہی نہ کام آیا تو سر کس کے لیے تھا
یوں شام کی دہشت سرِ دشتِ ارادہ
رکنا تھا، تو پھر سارا سفر کس کے لیے تھا

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment