Wednesday 4 July 2012

کہیں سے لفظ مل جائیں

کہیں سے لفظ مل جائیں

مجھے اک نظم لکھنی ہے
کہیں سے لفظ مل جائیں
میں بے بس ہوں
کوئی تشبیہ نہ کوئی استعارہ ٹھیک لگتا ہے
کہاں سے لفظ وہ لاؤں جو دل کا حال کہہ پائیں
مجھے کتنی محبت ہے
مجھے کتنی عقیدت ہے
مجھے کتنی ضرورت ہے
میں بتلا دوں انہیں سب کچھ کہیں سے لفظ مل جائیں
مجھے ماں کی دعا سے جو ہوائے خلد آتی ہے
اسے کیسے میں لکھوں گا؟
مرے ابو کی شفقت جو مجھے جینا سکھاتی ہے
اسے کیسے میں لکھوں گا؟
میں بے بس ہوں
کہاں سے لفظ وہ لاؤں جو دل کا حال کہہ پائیں
میں ایسے لفظ ڈھونڈوں گا
جنہیں لکھوں تو کاغذ پر دیے سے جگمگا اٹھیں
جنہیں سوچوں تو ذہن و دل کا ہر گوشہ مہک جائے
جنہیں ہونٹوں پہ لاؤں تو دعا کے پھول کھل جائیں
کہیں سے لفظ مل جائیں
دھنک اوڑھے ہوئے کچھ لفظ مجھ کو ڈھونڈنے ہوں گے
کہ جن سے نظم لکھنی ہے 
انہیں سب کچھ بتانا ہے
مجھے کتنی محبت ہے
مجھے کتنی عقیدت ہے
مجھے کتنی ضرورت ہے

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment