کہیں سے لفظ مل جائیں
مجھے اک نظم لکھنی ہے
کہیں سے لفظ مل جائیں
میں بے بس ہوں
کوئی تشبیہ نہ کوئی استعارہ ٹھیک لگتا ہے
مجھے کتنی محبت ہے
مجھے کتنی عقیدت ہے
مجھے کتنی ضرورت ہے
میں بتلا دوں انہیں سب کچھ کہیں سے لفظ مل جائیں
مجھے ماں کی دعا سے جو ہوائے خلد آتی ہے
اسے کیسے میں لکھوں گا؟
مرے ابو کی شفقت جو مجھے جینا سکھاتی ہے
اسے کیسے میں لکھوں گا؟
میں بے بس ہوں
کہاں سے لفظ وہ لاؤں جو دل کا حال کہہ پائیں
میں ایسے لفظ ڈھونڈوں گا
جنہیں لکھوں تو کاغذ پر دیے سے جگمگا اٹھیں
جنہیں سوچوں تو ذہن و دل کا ہر گوشہ مہک جائے
جنہیں ہونٹوں پہ لاؤں تو دعا کے پھول کھل جائیں
کہیں سے لفظ مل جائیں
دھنک اوڑھے ہوئے کچھ لفظ مجھ کو ڈھونڈنے ہوں گے
کہ جن سے نظم لکھنی ہے
انہیں سب کچھ بتانا ہے
مجھے کتنی محبت ہے
مجھے کتنی عقیدت ہے
مجھے کتنی ضرورت ہے
عاطف سعید
No comments:
Post a Comment