Tuesday 3 July 2012

مجھے تم کیا بتاؤ گی

مجھے تم کیا بتاؤ گی

کہ جب سے مجھ سے بچھڑی ہو
بہت بے چین رہتی ہو
مری باتیں ستاتی ہیں
مرے لفظوں کے جگنو
ایک پل اوجھل نہیں ہوتے
مری نظمیں رُلاتی ہیں
مری آنکھیں جگاتی ہیں
مجھے تم کیا بتاؤ گی
کہ تم نے بارہا اُن اجنبی چہروں کے جنگل میں
مرے چہرے کو ڈھونڈا ہے
کسی مانوس لہجے پر
کسی مانوس آہٹ پر
پلٹ کر ایسے دیکھا ہے
کہ جیسے تم مری موجودگی محسوس کرتی ہو
مجھے تم کیا بتاؤ گی
کہ کتنی شبنمی شامیں
ٹہلتے، سوچتے گزریں
کہ کتنی چاندنی راتیں
دعائیں مانگتے گزریں
کہ کتنے اشک ایسے تھے
جو گرتے ہی رہے دل میں
مجھے تم کیا بتاؤ گی
مری جاں! میں سمجھتا ہوں
تمہاری اَن کہی باتیں
کہ میں ان موسموں کے ایک اک رستے سے گزرا ہوں
میں اب بھی لفظ چنتا ہوں
میں اب بھی اشک بُنتا ہوں
کہ جب سے تم سے بچھڑا ہوں
تمہاری ذات پر گزرے
میں ہر موسم میں رہتا ہوں
تو پھر تم کیا سناؤ گی
مجھے تم کیا بتاؤ گی

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment