Tuesday 3 July 2012

کسی کی یاد کی پرچھائیوں میں چھوڑ گیا

کسی کی یاد کی پرچھائیوں میں چھوڑ گیا
یہ کون پھر سے مجھے آندھیوں میں چھوڑ گیا
مہک رہا ہوں صبح و شام تیری یادوں میں
ترا وجود مجھے خوشبوؤں میں چھوڑ گیا
قدم قدم وہ مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
وہ اپنا آپ مرے راستوں میں چھوڑ گیا
تمام عمر مرے ساتھ وہ بھی جاگے گا 
جو اپنی نیند مرے رتجگوں میں چھوڑ گیا
ابھی تو ڈوب کے ساحل کے پاس پہنچا تھا
یہ کون پھر سے مجھے پانیوں میں چھوڑ گیا
جلا رہا ہوں جسے چھو رہا ہوں میں عاطفؔ
یہ کون آگ سی میری رگوں میں چھوڑ گیا

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment