Tuesday 31 July 2012

نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد

نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد
وہی ہے حال ہمارا، جو ہو گناہ کے بعد
میں کیسے اور کسی سمت موڑتا خود کو
کسی کی چاہ نہ تھی دل میں تیری چاہ کے بعد
ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے، کہ ہو گناہ کے بعد
کٹی ہوئی تھیں تنابیں تمام رِشتوں کی
چھپاتا سر میں کہاں تجھ سے رسم و راہ کے بعد
ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا، مگر گناہ کے بعد
گواہ چاہ رہے تھے وہ بے گناہی کا
زباں سے کہہ نہ سکا کچھ خدا گواہ کے بعد
خطوط کر دِیئے واپس، مگر میری نیندیں
انہیں بھی چھوڑ دو اِک رحم کی نگاہ کے بعد

کرشن بہاری نور

No comments:

Post a Comment