Friday 13 July 2012

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مِری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے
لٹاتے دولتِ دنیا کو مئے کدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے
جو دیکھتے تِری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارۂ سحری تکمۂ گلُو کرتے
یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخِ یار
یہ بے سبب نہیں مُردے کو قبلہ رُو کرتے
سکھاتے نالۂ شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے
وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے

خواجہ حیدر علی آتش

No comments:

Post a Comment