Tuesday 3 July 2012

کہیں ایسا کبھی دیکھا نہیں ہے

کہیں ایسا کبھی دیکھا نہیں ہے
وہ میرا ہو کے بھی میرا نہیں ہے
سمندر بانٹتا پھرتا ہے پانی
مگر اب کوئی بھی پیاسا نہیں ہے
خزاں رُت میں ہری شاخوں کی باتیں
سنو، یہ تذکرہ اچھا نہیں ہے
تمہاری آنکھ میں ٹھہرا ہوا ہے
وہ جملہ جو ابھی بولا نہیں ہے
اسے مل کر یہی جانا ہے میں نے
سمندر اس قدر گہرا نہیں ہے
میں خود کو کس طرح سمجھاؤں عاطفؔ
کوئی بھی لوٹ کر آتا نہیں ہے

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment