Sunday 15 July 2012

رات کی رانی کی خوشبو سے

رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے 

رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ مِرے پاس آئے
آج تسکینِ مشامِ جاں کو
دل کے زخموں کی مہک کافی ہے
یہ مہک، آج سرِشام ہی جاگ اٹھی ہے

اب یہ بھیگی ہوئی بوجھل پلکیں
اور نمناک، اداس آنکھیں لیے
رت جگا ایسے منائے گی کہ خود بھی جاگے
اور پَل بھر کے لیے، میں بھی نہ سونے پاؤں
دیومالائی فسانوں کی کسی منتظرِ موسمِ گل راجکماری کی خزاں بخت، دکھی روح کی مانند
بھٹکنے کے لیے
کُو بہ کُو ابرِ پریشاں کی طرح جائے گی
دُور  افتادہ سمندر کے کنارے بیٹھی
پہروں اس سمت تکے گی جہاں سے اکثر
اس کے گم گشتہ جزیروں کی ہَوا آتی ہے
گئے موسم کی شناسا خوشبو
یوں رگ و پے میں اترتی ہے
کہ جیسے کوئی چمکیلا، روپہلا سیال
جسم میں ایسے سرایت کر جائے
جیسے صحراؤں کی شریانوں میں پہلی بارش
غیر محسوس سروشِ نکہت
ذہن کے ہاتھ میں وہ اِسم ہے
جس کی دستک
یاد کے بند دریچوں کو بڑی نرمی سے
ایسے کھولے گی کہ آنگن میرا
ہر دریچے کی الگ خوشبو سے
رنگ در رنگ چھلک جائے گا
یہ دلآویز خزانے میرے
میرے پیاروں کی عطا بھی ہیں
مرے دل کی کمائی بھی ہیں
ان کے ہوتے ہوئے اوروں کی کیا ضرورت ہے
رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ میرے پاس آئے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment