Sunday 1 July 2012

رنگ تہذیب و تمدن کے شناسا ہم بھی ہیں

 رنگِ تہذیب و تمدن کے شناسا ہم بھی ہیں

صورتِ آئینہ مرہونِ تماشا ہم بھی ہیں

حال و مستقبل کا کیا ہم کو سبق دیتے ہیں

اس قدر تو واقفِ امروز و فردا ہم بھی ہیں

بادلِ نخواستہ ہنستے ہیں دنیا کے لیے

ورنہ یہ سچ ہے پشیماں ہم بھی ہیں

کچھ سفینے ہیں کہ طوفاں سے ہے جن کی سازباز

دیکھنے والوں میں اِک بیرونِ دریا ہم بھی ہیں

دیکھنا ہے تو دیکھ لو اٹھتی ہوئی محفل کا رنگ

صبح کے بجھتے چراغوں کا سنبھالا ہم بھی ہیں

کاغذی ملبوس میں ابھری ہے ہر شکلِ حیات

ریت کی چادر پہ اِک نقشِ کفِ پا ہم بھی ہیں

جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں آثارِ قدیم

پی گئیں جس کو گزرگاہیں وہ دریا ہم بھی ہیں


احسان دانش

No comments:

Post a Comment