Sunday 15 July 2012

ایسے ہوئے برباد تیرے شہر میں آ کر

ایسے ہُوئے برباد تیرے شہر میں آ کر
کچھ بھی نہ رہا یاد تیرے شہر میں آ کر
کیا دن تھے چہکتے ہُوئے اڑتے تھے پرندے
اب کون ہے آزاد تیرے شہر میں آ کر
یہ دن ہیں کہ چُھپتے ہُوئے بھرتے ہیں سرِشام
سب لوگ ہیں ناشاد تیرے شہر میں آ کر
حالات نے یُوں تجھ سے جُدا مجھ کو کیا ہے
ہو پائے نہ آباد تیرے شہر میں آ کر
جو زخمِ جُدائی ہے اسے کس کو دکھائیں
اب کس سے ہو فریاد تیرے شہر میں آ کر
اب شعر سُنانے کا مزا بھی نہیں آتا
بے داد ہوئی داد تیرے شہر میں آ کر
ان شوخ نگاہوں سے حسنؔ طرزِ تکلم
ہم نے کیا ایجاد تیرے شہر میں آ کر

حسن رضوی

No comments:

Post a Comment