Wednesday 11 July 2012

سانجھ سویرے اپنے آپ سے لڑتا ہوں

سانجھ سویرے اپنے آپ سے لڑتا ہوں
رات گئے پھر اپنے پاؤں پڑتا ہوں
دن کی کھڑکی کھلتے ہی اُڑ جاتے ہیں
سوچوں کے جو پنچھی روز پکڑتا ہوں
رات کو آنسو چُن کر بھیگی پلکوں سے
آنچل آنچل چاند ستارے جڑتا ہوں
وصل اور ہجر کے آتے جاتے موسم میں
اپنے آپ سے ملتا اور بچھڑتا ہوں
جانے کب تکمیل ہو عاجزؔ ہستی کی
لحظہ لحظہ بنتا اور بگڑتا ہوں

مشتاق عاجز

No comments:

Post a Comment