Monday 16 July 2012

بس اک دو پل کہاں دکھ بولتے ہیں

بس اک دو پل کہاں دُکھ بولتے ہیں
یہاں تو جاوداں دُکھ بولتے ہیں
جہاں تُو ہے وہاں خُوشیاں ہیں لاکھوں
جہاں میں ہوں وہاں دُکھ بولتے ہیں
مِرا دل بھی سمندر کی طرح ہے
اور اس میں بیکراں دُکھ بولتے ہیں
مِرے چُپ چاپ بہتے آنسوؤں میں
برنگِ کہکشاں دُکھ بولتے ہیں
خروشِ موجۂ وحشی نہ پوچھو
تہِ آبِ رواں دُکھ بولتے ہیں
یہاں اب کون سُنتا ہے کسی کی
یہاں تو رائیگاں دُکھ بولتے ہیں
کسی کو کیا نظر آئے گا باقیؔ
مِرے تو بے نشاں دُکھ بولتے ہیں

باقی احمد پوری

No comments:

Post a Comment