Tuesday 31 July 2012

آگ ہے پانی ہے مٹی ہے ہوا ہے مجھ میں

آگ ہے، پانی ہے، مٹی ہے، ہوا ہے مجھ میں
اور پھر ماننا پڑتا ہے کہ خدا ہے مُجھ میں
اب تو لے دے کے وہی شخص بچا ہے مجھ میں
مجھ کو مجھ سے جو جدا کر کے چھپا ہے مجھ میں
جتنے موسم ہیں سب جیسے کہیں مل جائیں
ان دنوں کیسے بتاؤں جو فضا ہے مجھ میں
آئینہ یہ تو بتاتا ہے کہ میں کیا ہوں، لیکن
آئینہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں
اب تو بس جان ہی دینے کی ہے باری اے نورؔ
میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مجھ میں

کرشن بہاری نور

2 comments:

  1. It is a wonderful poetry. I have been in search of this for almost ten years. I haerd it first in a Mushaira but could not get the complete version anywhere. And thakns you have provided the name as well. That is really great.

    ReplyDelete
  2. طاہر جی پسندیدگی کا شکریہ
    خوش و آباد رہیں

    ReplyDelete