Thursday 5 July 2012

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو

انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا 
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا 
اس دل کے دريدہ دامن میں، ديکھو تو سہی، سوچو تو سہی 
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا 
شب بيتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجير پڑی دروازے پہ 
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کيا 
پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی 
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا، گھبرانا کيا 
اس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانا کیا 
اس حسن کے سچے موتی کو، ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا، وہ خزانا کیا 
اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے من! اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا، یوں ماٹی میں مِل جانا کیا 
جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کریں 
ديوانوں کی سی نہ بات کرے، تو اور کرے ديوانہ کيا

ابن انشا

No comments:

Post a Comment