Sunday 29 July 2012

عشق کی مار بڑی دردیلی عشق میں جی نہ پھنسانا جی

عشق کی مار بڑی دردیلی عشق میں جی نہ پھنسانا جی
سب کچھ کرنا، عشق نہ کرنا، عشق سے جان بچانا جی
وقت نہ دیکھے، عمر نہ دیکھے، جب چاہے مجبور کرے
موت اور عشق کے آگے تو کوئی چلے نہ بہانہ جی
عشق کی ٹھوکر موت کی ہچکی دونوں کا ہے ایک اثر
ایک کرے گھر گھر رسوا، ایک کرے افسانہ جی
عشق کی نعمت پھر بھی یارو! ہر نعمت پر بھاری ہے
عشق کی ٹیسیں دیں خدا کی، عشق سے کیا گھبرانا جی
عشق کی نظروں میں یکساں، کعبہ کیا، بت خانہ کیا
عشق میں دنیا، عقبہ کیا ہے، کیا اپنا، بیگانہ جی
راہ تکے ہیں پی کے نگر کی، آگ پہ چل کر جانا ہے
عشق ہے سیڑھی پی کے نگر کی جو چاہو تو نبھانا جی
طرزؔ! بہت دن جھیل چکے تم دنیا کی زنجیروں کو
توڑ کے پنجرہ اب تو تمہیں ہے دیس پیا کے جانا جی

 گنیش بہاری طرز

1 comment: