Friday 13 July 2012

کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر

کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر
ڈوبتا ہے اس اندھیرے میں دل برباد پھر
اپنے اپنے انتخاب آرزو کی بات ہے
شاد ہوتا ہے کوئی دل اور کوئی ناشاد پھر
گہرے نیلے جنگلوں سے گھوم کر نکلے تو تھا
سامنے اک قریۂ بے خواب و بے آباد پھر
رَم بہت کرنے لگا ہے یہ غزالِ آرزو
پھیلتا جاتا ہے آنکھوں میں وہ دشتِ یاد پھر
اس قدر نالاں وہ گر الفت کی یکسانی سے ہے
کس لیے ہوتا نہیں اس قید سے آزاد پھر
سیم سی اک پھیلتی جاتی ہے دیواروں پہ کیوں
بھر گئی تعبیر سے کیا خواب کی بنیاد پھر
بات تک کرنے کو گر اس شہر میں کوئی نہیں
کون سنتا ہے دلِ بیمار کی فریاد پھر
نیند میں چلنے لگی بھیگی ہوئی ٹھنڈی ہَوا
خواب کے ہمراہ آئی اک پرانی یاد پھر
تن کو چھوتی ہیں کچھ ایسے فروری کی بارشیں
یہ خرابہ ہونے والا ہے ابھی آباد پھر
سامنے ہے پھر سے رنگا رنگ پھولوں کی بہار
دے رہی ہوں اپنے باغِ آرزو کو داد پھر

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment