Monday 2 July 2012

کرے دریا نہ پل مسمار میرے

کرے دریا نہ پُل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
بہت دن گزرے اب دیکھ آؤں گھر کو
کہیں گے کیا در و دیوار میرے
وہیں سورج کی نظریں تھیں زیادہ
جہاں تھے پیڑ سایہ دار میرے
وہی یہ شہر ہے تو شہر والو
کہاں ہیں کوچہ و بازار میرے
تم اپنا حالِ مہجوری سناؤ
مجھے تو کھا گئے آزار میرے
جنہیں سمجھا تھا جاں پرور میں اب تک
وہ سب نکلے کفن بردار میرے
گزرتے جا رہے ہیں دن ہوا سے
رہیں زندہ سلامت یار میرے
دبا جس میں اسی پتھر میں ڈھل کر
بکے چہرے سرِ بازار میرے
دریچہ کیا کھلا میری غزل کا
ہوائیں لے اڑیں اشعار میرے

محشر بدایونی

No comments:

Post a Comment