Wednesday 4 July 2012

دیکھ لینا کہ کسی دکھ کی کہانی تو نہیں

دیکھ لینا کہ کسی دُکھ کی کہانی تو نہیں
یہ جو آنسو ہیں، کہیں اُس کی نشانی تو نہیں
دِکھ رہی ہے جو مُجھے صاف تیری آنکھوں میں
تُو نے یہ بات کہیں مُجھ سے چُھپانی تو نہیں
جانتا ہوں کہ سرابوں میں گِھرا ہوں یارو
دوڑ پڑتا ہوں مگر پِھر بھی کہ پانی تو نہیں
جس طرح شہر سے نکلا ہوں میں بیمار ترا
یہ اُجڑنا ہے، کوئی نقل مکانی تو نہیں
اُس نے چاہا ہے مُجھے اپنے خُدا سے بڑھ کر
میں نے یہ بات زمانے کو بتانی تو نہیں
یہ جو ہر موڑ پہ آ ملتی ہے مُجھ سے فرحتؔ
بدنصیبی بھی کہیں میری دیوانی تو نہیں

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment