Thursday 19 July 2012

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب ان کو ہم آئے
مٹی کی مہک سانس کی خوشبو میں اتر کر
بھیگے ہوئے سبزے کی ترائی میں بلائے
دریا کی طرح موج میں آئی ہوئی برکھا
زردائی ہوئی رُت کو ہرا رنگ پِلائے
بوندوں کی چھماچھم سے بدن کانپ رہا ہے
اور مست ہوا رقص کی لَے تیز کیے جائے
شاخیں ہیں تو وہ رقص میں، پتے ہیں تو رم میں
پانی کا نشہ ہے کہ درختوں کو چڑھا جائے
ہر لہر کے پاؤں سے لپٹنے لگے گھنگھرو
بارش کی ہنسی تال پہ پازیب جو چھنکائے
✴انگور کی بیلوں پہ اتر آئے ستارے
رکتی ہوئی بارش نے بھی کیا رنگ دکھائے

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment