Sunday 1 July 2012

کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ہیں

کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ہیں
مِرے بہے ہوئے آنسو جبیں پہ لائے ہیں
نہ سرگزشتِ سفر پوچھ مختصر یہ ہے
کہ اپنے نقشِ قدم ہم نے خود مِٹائے ہیں
نظر نہ توڑ سکی آنسوؤں کی چِلمن کو
وہ روز اگرچہ مِرے آئینے میں آئے ہیں
اس ایک شمع سے اترے ہیں بام و در کے لباس
اس ایک لو نے بڑے " پھول بن " جلائے ہیں
یہ دوپہر، یہ زمیں پر لِپا ہوا سُورج
کہیں درخت نہ دیوار و در کے سائے ہیں
کلی کلی میں ہے دھرتی کے دودھ کی خُوشبو
تمام پھول اسی ایک ماں کے جائے ہیں
نظر خلاؤں پہ اور انتظارِ بے وعدہ
بہ ایں عمل بھی وہ آنکھوں میں جھلملائے ہیں

احسان دانش

No comments:

Post a Comment